Welcome to English Literature and Linguistics, Join Online Classes (Only For Ladies)

MA ENGLISH LITERATURE

Monday 1 October 2018

A_Doll_s_House_by_Henrik_Ibsen in Urdu

#A_Doll_s_House_by_Henrik_Ibsen

’گڑیا کا گھر‘ (A Doll's House)ناروے کے ڈرامہ نگار ہینرک ابسنHenrik  Ibsen کا مشہور ڈراما ہے۔ اس کا مرکزی کردار’نورا‘ ایک ایسی عورت ہے جو بالادست مردوں کے طے کردہ معیار کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پہلے باپ اور پھر شوہر کی تابعدار یہ عورت گویا ایک گڑیا ہے جسے نہ خودمختاری حاصل ہے اور نہ ہی اس کی کوئی شناخت ہے۔ یہ ڈراما نورا کے اس فیصلے پر ختم ہوتا ہے جہاں وہ اپنی ذات کی دریافت کے لیے اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ منصف کی جانب سے اس ڈرامے کے حوالے سے طلاق یا اپنا ’گھر‘ چھوڑنے کے کلنک کی بجائے نورا کو عزت نفس اور اپنی ذات کی پہچان پر مبنی ایک آزاد زندگی دینے میں جو انسان دوستی دکھائی، اسے بہت سراہا گیا۔ اس ڈرامے سے ایک سنسنی پھیل گئی اور ایک بحث کا آغاز ہو گیا۔ قدامت پرست غصے سے تلملانے لگے جبکہ آزادیِ نسواں کے حامی لبرل حلقوں نے شادیانے بجائے۔ اس ڈرامے کو اپنے وقت کی سماجی قدروں سے ایک بےباک بغاوت کے طور پر دیکھا گیا۔ عورتوں کے غیر فعال، سماج کے مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے اور اپنی تمناو¿ں کا گلا گھوٹنے والے کردار پر سوال اٹھائے گئے اور ان سماجی ڈھانچوں پر بھی تنقید کی گئی جو مردانہ بالادستی کو نافذ کرتے تھے۔ یہ 1897 کی بات ہے۔ لیکن ہم میں سے کتنے آج کے پاکستان میں یا دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی پاکستانی برادریوں میں اس کا عکس دیکھ سکتے ہیں؟ اگرچہ پاکستان میں عورتوں کے مسائل کے حوالے سے بیداری میں اضافہ ہوا ہے اور آج مختلف سماجی شعبوں میں عورتیں پہلے کی نسبت زیادہ دکھائی دیتی ہیں لیکن پاکستانی معاشرہ آج بھی مردانہ بالادستی کے اصول پر قائم ہے اور اپنے جسمانی اور مالیاتی تحفظ کے لیے مردوں پر انحصار کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ سماجی اور ثقافتی سوچ جو عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے، اسی طرح موجود اور مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ جہاں معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافے سے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ہونے والی کامیابیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں، وہیں بالائی سطح پر قانونی اور عدالتی نظام بھی معاشرے میں عورتوں کے مقام میں اضافہ کرنے میں مددگار دکھائی نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ جہاں قانون موجود بھی ہے، وہاں بھی اس پر عمل درآمد کی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ کیا عورتوں کے بنیادی حقوق کو ریاست اور معاشرے کی جانب سے توثیق اور تحفظ حاصل ہے؟ خواتین کا عالمی دن (آٹھ مارچ) ابھی چند دن پہلے گزرا ہے۔ اسی سماجی کارکن پروین رحمان کی دوسری برسی بھی منائی گئی۔ اس موقعے پر ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ پاکستان خصوصاً اس کی خواتین کہاں کھڑی ہیں۔ خواتین کا عالمی دن خواتین کا پہلا عالمی دن ایک صدی پہلے 1911 میں منایا گیا۔ 1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رکن ممالک کو مدعو کیا کہ وہ آٹھ مارچ کو اقوام متحدہ کا یومِ حقوق نسواں اور عالمی امن کے طور پر منائیں۔ ہر سال اس دن سماجی، سیاسی اور معاشی شعبوں میں عورتوں ماضی، حال اور مستقبل کی کامیابیوں کو سلام کیا جاتا ہے۔ چین، روس، ویت نام اور آذربائیجاں میں اس دن قومی تعطیل ہوتی ہے۔ اس برس اس دن کو خصوصی طور پر عورتوں کےحقوق کے لیےہونے والی 1995 کی بیجنگ کانفرنس اور لائحہ عمل کو اجاگر کرنے کے لیے منایا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر (نیویارک) میں کمیشن برائے حقوق نسواں کا 59واں اجلاس نو تا 20 مارچ تک جاری رہے گا جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بیجنگ کانفرنس کی سفارشات پر کس حد تک عمل درآمد ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں عورتوں کے مقام و مرتبہ میں کس حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بیجنگ میں ہونے والی اس یادگار کانفرنس میں مرکزی طور پر جن معاملات کو نمایاں حیثیت دی گئی اور جن سے صنفی برابری کا لائحہ عمل طے پایا، ان میں خواتین اور غربت، خواتین پر تشدد اور اقتدار اور فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت جیسےاہداف شامل تھے۔ اس اجتماعی فیصلے پر دنیا کے 189 ممالک نے دستخط کیے جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستان میں حقوق نسواں کی کہانی 1982 میں، اپنے والد کے قتل کے تین سال بعد 29 سالہ بینظیر بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ منتخب کی گئیں۔ چھ برس بعد وہ کسی اسلامی مملکت کی پہلی خاتون سربراہ حکومت منتخب ہوئیں۔ 17 سالہ ملالہ یوسف زئی عورتوں کے تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی کارکن ہیں اور گذشتہ برس وہ تاریخ کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ قرار پائیں۔ حال ہی میں ایک اور نوجوان لڑکی نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف ایک سماجی مہم کا آغاز کیا ہے۔ معاشی شراکت داری اور مواقع میں عدم مساوات کے حوالے سے پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے ان مثالوں کے باوجود، جن سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے مقام میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اگر صنفی برابری پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان دنیا کے بدترین ملکوں میں سے ایک ہے جو ورلڈ اکنامک فورم کے 2014 کے صنفی امتیاز کے اشاریے میں صرف یمن سے آگے ہے۔ پاکستان مسلسل تین برسوں سے اپنے اس آخری سے پہلی پوزیشن کا دفاع کر رہا ہے۔ حقیقی معنوں میں اس کا کیا مطلب ہے؟ ورلڈ اکنامک فورم صنفی امتیاز کو بنیادی طور پر چار حوالوں سے جانچتا ہے۔ ان میں شامل ہیں: معاشی شراکت داری اور مواقع، روزگار میں عورتوں کی نمائندگی، تنخواہوں میں مساوات، عورتوں کی آمدنی کا تخمینہ، قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کا تناسب، اعلیٰ سرکاری افسروں میں خواتین کا تناسب اور پیشہ ورانہ ماہرین اور تکنیکی ورکروں میں خواتین کا تناسب تعلیمی صورتحال، خواتین کی شرح خواندگی، اور پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں خواتین کے داخلے کی شرح صحت اور حقِ حیات، بچوں کی پیدائش میں لڑکیوں اور لڑکوں کا تناسب اور صحت مند شرح عمر کا تخمینہ سیاسی اختیار، پارلیمنٹ میں عورتوں کا تناسبوزارتوں میں عورتوں کا تناسب اور عورت سربراہ مملکت کے اقتدار کا دورانیہ معاشی شراکت داری اور مواقع میں عدم مساوات کے حوالے سے پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ لیبر فورس میں صرف 25 فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ مردوں کا تناسب 84 فیصدہے۔ مردوں کی شرح خواندگی 47 فیصد جبکہ عورتوں کی شرح خواندگی صرف 42 فیصد ہے۔ ہر 40 منٹ میں ایک عورت دوران زچگی مر جاتی ہے اوربچہ جنم دینے والی عورت کی صحت کے لئے انتہائی کم وسائل رکھے گئے ہیں۔ رافعہ زکریا پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکہ کے بورڈ کی رکن اور روزنامہ ڈان اور الجزیرہ میں کالم نگار ہیں۔ وہ گذشتہ دس برس سے پاکستانی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کر رہی ہیں اور ایک کتاب ’زوجہ زنان خانہ: پاکستان کی حقیقی تاریخ‘ کی مصنفہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کی آزادی کی گنجائش میں کمی واقع ہوئی ہے: ’پاکستانی عورت کو آج کم آزادی حاصل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سے لوگ ایک ایسے مکمل اسلامی معاشرے کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں عورتوں کا گھر کی چار دیواری میں میں رہنا اسلامی طرز حیات اپنانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ‘ عورتوں نے خود جدوجہد اور لابنگ کی ہے اور ریاستی اداروں اور معاشرے میں اپنے لیے مقام بنایا ہے: عاصمہ جہانگیر معروف وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن، عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ اگرچہ سماجی اشاریے افسوس ناک ہیں اور عورتوں کے خلاف لرزہ خیز واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ’اب عورتوں کو زیادہ آگاہی حاصل ہے، وہ معاشرے میں زیادہ متحرک ہیں اور آج ان کی آواز زیادہ سنی جاتی ہے۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس ترقی میں ریاست کی کوئی کاوش شامل نہیں۔ ان کے مطابق: ’عورتوں نے خود جدوجہد اور لابنگ کی ہے اور ریاستی اداروں اور معاشرے میں اپنے لیے مقام بنایا ہے۔‘ گھریلو تشدد، کم عمری کی شادیاں اور جبری شادیاں پاکستانی معاشرے میں موجود گہرے صنفی امتیاز کا نمایاں اظہار ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں پانچ ہزار عورتیں ہر برس ناموسی قتل کا شکار ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہر برس ایک ہزار عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ یعنی دنیا بھر میں قتل ہونے والی عورتوں کی 20 فیصد ہلاکتیں صرف پاکستان میں ہوتی ہیں۔ گذشتہ ہفتے سینٹ نے ناموسی قتل کے خلاف ایک بل پاس کیا ہے لیکن رافعہ زکریا کہتی ہیں کہ یہ اقدامات مسئلے کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں: ’کوئی اصل مسئلہ یعنی عورتوں کے دوسرے درجے کا مقام، چاہے شوہر کے انتخاب کا معاملہ ہو یا زنا بالجبر کی رپورٹ یا گواہی کا مسئلہ ہو، اس بل میں ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا جس سے عورتوں کو زنا بالجبر کی رپورٹ یا گواہی میں مدد ملتی ہو۔‘ 2004 میں بننے والے قانون برائے تحفظ نسواں پر پہلے ہی وفاقی شرعی عدالت سوال اٹھا چکی ہے اور وہ کئی برسوں سے معرضِ التوا میں ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں امن وامان بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ ریاست مجرموں کے خلاف موثر کارروائی نہں کرتی اور مقدمات کئی کئی برس تک لٹکے رہتے ہیں۔‘ دو برس قبل، اس ہفتے میں، سماجی کارکن پروین رحمان، جنھوں نے گذشتہ 30 برس سے اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے وقف کر رکھی تھی، کراچی میں دن دہاڑے چار مسلح افراد کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ ان کی دوسری برسی ہے اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ اگرچہ عورتوں کے حوالے سے قوانین میں، خصوصا ضیا الحق کے ’استبدادی‘ دور کے مقابلے میں بہتری آئی ہے لیکن محض قوانین بجائے خود کافی نہیں: ’قوانین خود اپنے آپ پر عمل نہیں کروا سکتے، گورننس اور عدلیہ کا نظام انتہائی ناقص ہے۔‘ اس تمام صورت حال میں پاکستانی طالبان کی شدت پسندی مزید اضافہ کر دیتی ہے جس نے ایک دہائی سے پاکستان کو تاراج کر رکھا ہے۔ وہ عورتوں کو اپنے زہریلے ایجنڈے کا ایک مہرہ سمجھتے ہیں اور انھیں سماجی ذندگی سے نکال باہر کرنے کے حوالے سے اپنے سیاسی مدعا کا اظہار کرتے ہیں۔ طالبان نے سوات اور فاٹا میں عورتوں کی تعلیم اور طبی ورکروں کے خلاف ایک انتہائی متشدد تحریک چلائی۔ کس بات کا جشن منائیں؟ پاکستانی عورت کو آج کم آزادی حاصل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سے لوگ ایک ایسے مکمل اسلامی معاشرے کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں عورتوں کا گھر کی چار دیواری میں میں رہنا اسلامی طرز حیات اپنانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ رافعہ زکریا عاصمہ کہتی ہیں: ’عورتوں کو جشن منانا چاہیے۔ آج زندگی کے ہر شعبے میں انھیں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ عورتیں جبر کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ وہ اپنے حقوق اور ان کی پامالی کے حوالے سے آج زیادہ آگاہ ہیں اور وہ مزید حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔‘ سچی بات یہ ہے کہ عورتوں کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے جو غیر معمولی، اکثر اوقات خطرناک حالات، رکاوٹوں اور جبر کے باوجود آگے بڑھ رہی ہیں۔ آنے والے برسوں میں 2030 تک پاکستان کی 60 فیصد آبادی شہری ہو گی جن میں عورتوں کی ایک نئی لہر بھی شامل ہو گی۔ اس صورت حال میں ممکنہ طور پر ایسے مواقع پیدا ہوں گے کی عورتیں قبائلی اور ذات برادری کی سوچ اور ذہنی ڈھانچوں کو توڑ کر اپنے خاندان میں معاشی اور فیصلہ سازی کا زیادہ اختیار حاصل کر سکیں۔ اگرچہ دنیا بھر میں صنفی امتیاز ایک جاری جدوجہد ہے لیکن پاکستان میں عورتوں کے حقوق کو ادارہ جاتی شکل دینا ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے جس میں کئی ان دیکھے جال بچھے ہوں گے۔ رافعہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک عورت کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ ایک جج اگر چاہے تو بھاگی ہوئی لڑکی کو زبردستی اس کے باپ کے پاس بھیج سکتا ہے۔ درحقیقت، بیشتر عورتیں اپنا گھر چھوڑتے ہوئے زندگی با بدنامی کا خطرہ مول لیتی ہیں۔ لہٰذا ابسن کے ڈرامے ’گڑیا گھر‘ کی نورا کے برعکس پاکستانی عورتوں کی اکثریت کے لیے سماجی اور قانونی اعتبار سے آسان فیصلہ نہیں۔ پاکستان ابھی تک اپنی عورت کو یہ درس دینے پر کمر بستہ ہے کہ اس کا یہ بنیادی حق انتہائی قابل مذمت ہے۔

No comments:

Post a Comment