Welcome to English Literature and Linguistics, Join Online Classes (Only For Ladies)

MA ENGLISH LITERATURE

Friday, 13 November 2020

Existentialism

#وجودیت_کیا_ہے؟ #Existentialism

وجودیت وہ نکتہ نظر ہے جس کا اظہار فلسفہ کی نسبت شاعری میں ہوا ہے گو کہ یہ اپنی اصل میں ایک فلسفہ ہی ہے۔ اس کے مطابق اس کائنات کے وسیع تر تناظر میں تمام اجسام اور بو قلمونیوں کی نسبت وجود اور وہ بھی انسان کے وجود کو اس قدر فوقیت کا حامل سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ماسوا سب کچھ ہیچ اور غیر اہم ہے۔

کائنات کی وسعت میں صرف فرد کا وجود ہی محور کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ اصول تنقیدی طور پہ غیر متوازن اور مبالغہ آرائی پر ہے۔

وجودیت کا نکتہ نظر رکھنے والے وجودی کہلاتے ہیں اور ان کے نزدیک ذات کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کے علاوہ سماج کی بندشیں اور مذہب کی زنجیریں بے معنی اور فضول ہیں۔

وجودیت تمام سوالات کو فرد کے وجود کے گرد جانچتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ انسان کے اس دنیا پر آنے کے مقصد , خدا کے پوشیدہ رہنے, اپنی تخلیق کے سلسلہ میں خالق کے مشورہ نہ کرنے اور اس جیسے بنیادی سوال اٹھاتی ہے۔ 

یہ فرد کے وجود کو اس قدر اہمیت دیتی ہے کہ جیسا بھی کوئی فرد ہو اچھا یا برا اس کا جواز فراہم کرتی ہے۔

مختصر طور پر اس کی عمومی خصوصیات یہ ہیں:

۔ وجود جیسا ہے ویسا ہی ٹھیک ہے ۔ عقل کے استعمال سے اس کی اصلیت مسخ کرنا فضول کام ہے۔
۔ اگر کوئی اچھا یا برا ہے تو جیسا بھی ہے ایک حقیقت ہے اس کو مذہب اور عمومی اخلاق سے تبدیل کرنا غیر حقیقی ہے۔
۔ سائنس چونکہ عقلی تاویلیں فراہم کرتی ہے اس لیے وجود کے لوازم سے انحراف کرتی ہے لھذا یہ غیر اہم ہے۔
۔ وجودیت ہر ایک کرب کو جوں کا توں تسلیم کر کے اس پر ہنسنے کا پیغام دیتی ہے اور یاس و حزن کو اپنا جزو اور مقدر قرار دیتی ہے۔
۔ وجودیت کسی بھی قسم کی اصلاح اور انقلاب کی روش کی نفی کرتی ہے اور جوں کی توں پالیسی کی حامل ہے۔
۔ یہ جنسیت و نرگسیت کو وجود سے منسلکہ ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے ان کی تسکین کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے مخالف ہے۔
۔ یہ ہر ایک فرد کو اس کے اپنے مخصوص تناظر اور ماحول میں دیکھنے کی قائل ہے اور آفاقی سچائیوں کے بر عکس ہر ذات کی اپنی مخصوص اقدار کو ہی سچ تسلیم کرتی ہے۔

وجودیت کا نکتہ نظر ڈیسکارٹ اور سیموئیل بیکٹ کے ادب میں پایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد ہوا۔  اردو ادب میں اقبال کے فلسفہ خودی کی کڑیاں بھی اسی سے ملتی ہیں گو کہ اقبال کا خودی کا فلسفہ اخلاقیات کے دائرے میں محدود ہے اور خالص وجودیت سے عاری ہے۔


No comments:

Post a Comment