Welcome to English Literature and Linguistics, Join Online Classes (Only For Ladies)

MA ENGLISH LITERATURE

Tuesday, 1 February 2022

کیاحال سنائیں دنیاکا ' کیابات بتائیں لوگوں کی

 بہت خوبصورت انداز ❤

ظہیر احمد ظہیر کی یہ غزل ہے۔.

کیاحال سنائیں دنیاکا ' کیابات بتائیں لوگوں کی 

دنیاکےہزاروں موسم ہیں ' لاکھوں ہیں ادائیں لوگوں کی 

 کچھ لوگ کہانی ہوتےہیں 'دنیا کوسنانے کےقابل 

کچھ لوگ نشانی ہوتےہیں ' بس دل میں چھپانےکےقابل  

کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں ' اِک بار گئے تو آتے نہیں  

ہم لاکھ بُلانا بھی چاہیں ' پرچھائیں بھی انکی پاتے نہیں 

کچھ لوگ خیالوں کے اندرجذبوں کی روانی ہوتے ہیں  

کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح ' پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں  

کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں ' کچھ لوگ کنارا ہوتے ہیں  

کچھ ڈوبنے والی جانوں کوتنکوں کا سہارا ہوتے ہیں 

کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ ' کچھ ریت گھروندہ چھوٹا سا 

کچھ لوگ مثال ابرِ رواں ' کچھ اونچے درختوں کاسایہ 

کچھ لوگ چراغوں کی صور ت ' راہوں میں اُجالا کرتے ہیں  

کچھ لوگ اندھیروں کی کالک' چہرے پر اُچھالا کرتے ہیں  

کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں ' دو گام چلےاور رستے الگ 

کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا ' ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ  

کیا حال سنائیں اپنا تمہیں کیا بات بتائیں جیون کی؟

اِک آنکھ ہماری ہنستی ہے' اِک آنکھ میں رُت ہے ساون کی 

ہم کس کی کہانی کا حصہ ' ہم کس کی دُعا میں شامل ہیں ؟ 

ہے کون جو رستہ تکتا ہےہم کس کی وفا کا حاصل ہیں ؟

کس کس کا پکڑ کر دامن'  ہم اپنی ہی کہانی کھوجیں گے  ؟

ہم کھو گئے ہیں کن راہوں میں ' اس بات کو صاحب جانے دیں  

کچھ درد سنبھالے سینے میں کچھ خواب لُٹائے ہیں ہم نے 

اک عمر گنوائی ہے اپنی کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے 

دل خرچ کیا ہے لوگوں پرجان کھوئی ہے غم پایا ہے 

اپنا تو یہی ہے سود و زیاں ' اپنا تو یہی سرمایہ ہے

اپنا تو یہی سرمایہ ہے

ظہیر احمد ظہیر

No comments:

Post a Comment